دروازے پر دستک ہوئی۔ علینہ نے دروازہ کھولا تو شاہین آنٹی تھیں۔ اب علینہ تو کیا پورے محلے والے آنٹی شاہین کی لگائی بجھائی کی عادت سے واقف تھے۔ لیکن سخت گرمی تھی تو علینہ نے مروتاً نہ صرف انھیں گھر میں آنے کی دعوت دی بلکہ جلدی سے شربت بھی بنا کر لے آئی۔
شاہین آنٹی نے شربت کے گھونٹ بھرتے ہوئے ادھر ادھر ناقدانہ نگاہیں دوڑائیں۔
’’آج تو اتوار ہے۔ واجد میاں دکھائی نہیں دے رہے؟ شاید ہمیشہ کی طرح انھیں باورچی خانے میں برتنوں کی دھلائی پر لگا رکھا ہوگا۔ بیٹا سچ مانو تو بیوی ہی کام کرتی اچھی لگتی ہے، عورت ہی گھر کے کام کرتی ہے۔ اب مجھے ہی دیکھ لو اتنی عمر گزر گئی لیکن آج تک تمھارے انکل سے مٹر تک نہیں چھلوائے۔ مگر معاف کرنا آج کل کی لڑکیاں اتنی کام چور اور نکمی ہیں۔ کبھی بچوں کا بہانہ ہوتا ہے تو کبھی فیشن کے پیچھے بھاگ رہی ہیں۔ کوئی گھر گرہستی نہیں لیکن اب کیا کہیں اپنے گھروں سے اپنی ماؤں سے یہی سیکھ کر تو آتی ہیں۔‘‘
اتنی دیر سے علینہ جو شاہین آنٹی کی سنے جارہی تھی، آخر اس کی والدہ کے نام پر اس کے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہوگیا۔
’’ خالہ بس رہنے دیجئے۔ میں پورا ہفتہ کام کرتی ہوں، نوکری پر بھی جاتی ہوں، شوہر کی خدمت کرتی اور اوپر تلے کے تین بچوں کی پرورش بھی کرتی ہوں۔ میرے شوہر صرف اتوار کو اگر برتن دھو لیتے ہیں، وہ بھی انھیں کبھی مجبور نہیں کیا بلکہ وہ یہ سب اپنی خوشدلی سے کرتے ہیں تو اس میں کیا برائی ہے؟‘‘
اس سب کے بعد یہ بتانے کی ہرگز کوئی ضرورت نہیں کہ شاہین آنٹی نے کن الفاظ میں علینہ کی مزید عزت افزائی کی اور اسے زبان درازی کا طعنہ بھی دے ڈالا۔
یہ کہانی ہر گھر کی ہے جہاں کہیں شوہر نے بیوی کی محبت میں گھر کا کام کردیا یا یہی احساس کرلیا کہ سارا دن یہ بے چاری کچن کے کام بھی کرتی رہی ہے یا دفتر کی ذمے داری بھی پوری کرکے آئی ہے، وہیں شوہر صاحبان کو پورے خاندان کی طرف سے ’’جورو کا غلام‘‘ ہونے کے طعنے ملنے لگتے ہیں۔
جبکہ لوگ سنت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بہت باتیں کرتے ہیں لیکن یہ کوئی نہیں دیکھتا کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی گھر کے کاموں میں ازواج مطہرات کا ہاتھ بٹایا کرتے تھے۔ وہ تو تمام مردوں سے افضل تھے لیکن انھوں نے ہمیشہ یہی درس دیا کہ سب سے اچھا شخص وہی ہے جو اہل و عیال بالخصوص بیوی کے ساتھ حسن سلوک کرتا ہے۔ وہ بھی چاہتے تو گھر کے کاموں سے پہلوتہی کرسکتے تھے لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا کیونکہ میاں بیوی معاشرتی زندگی کے دو اہم ستون ہیں۔
خلیفہ چہارم حضرت علی کرم اللہ وجہہ بھی پینے کا پانی باہر کنوئیں سے بھر کر لاتے، کبھی صحن کی گرد صاف کرتے اور کبھی چیزوں کو ترتیب سے رکھتے۔
آج کل کی مہنگائی کے دور میں جب ایک بیوی شوہر کو معاشی سہارا دینے کےلیے نوکری کرسکتی ہے، اس کی معاشی ذمے داریوں میں ہاتھ بٹا سکتی ہے تو مرد اپنی بیوی کا ہمدرد و غمگسار کیوں نہیں ہوسکتا؟ باقی شاہین آنٹی جیسی خواتین بہت ہیں اس معاشرے میں کہ اگر ان کی بہویں ان کے بیٹوں سے برتن یا کپڑے دھلوانے میں مدد لیں تو وہ اپنے بیٹوں کو بیوی کے غلام ہونے کے طعنے ضرور دیتی ہیں، ہاں البتہ اگر ان کے داماد ان کی بیٹیوں کو سر آنکھوں پر بٹھائیں تو ان کا کہنا یہی ہوتا ہے کہ میری تو بیٹی ہی بہت فرمانبردار ہے، ہیرا ہے، اس لیے شوہر بھی اس پر جان چھڑکتا ہے یا یہ کہ بے چاری میری بیٹی سارا دن کچن میں بھی کام کرے، ساس نندوں کی فرمائشیں بھی پوری کرے تو کیا اس بے چاری کا اتنا بھی حق نہیں کہ اس کا شوہر اس کا تھوڑا ہاتھ ہی بٹا دے۔ ایسی خواتین کا دہرا رویہ و معیار کبھی تبدیل نہیں ہوسکتا اور نہ ہی ہوگا۔
آخر میں آج یہ بھی کہنا ہے کہ معزز خواتین اگر آپ کے شوہر آپ کے مزاج آشنا ہیں، آپ سے محبت کرتے اور اسی محبت کی وجہ سے آپ کے ساتھ گھریلو کاموں میں آپ کا ہاتھ بٹاتے ہیں تو ان کی قدر کیجئے۔ ان کی خدمات کو ہرگز کمتر نہ سمجھیے، کیونکہ ایسے شوہر بہت نایاب ہوتے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
The post کیا بیوی کا ہمدرد ہونا زن مریدی ہے؟ (بلاگ برائے اتوار) appeared first on ایکسپریس اردو.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں