پاکستان کی وزارت اقتصادی امور نے رواں مالی سال کے پہلے دو ماہ میں بیرونی قرضوں اور فنڈنگ پر رپورٹ جاری کر دی ہے۔اس رپورٹ کے مطابق حکومت نے رواں سال بجٹ میں 17 ارب 38 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کی بیرونی فنڈنگ کا تخمینہ لگا رکھا ہے۔
رواں مالی سال 2023-24 کے پہلے دوماہ (جولائی،اگست) کے دوران پاکستان کو مجموعی طور پر پانچ ارب31کروڑ ڈالر ملے جب کہ گزشتہ سال اسی عرصے میں 43 کروڑ 90 لاکھ ڈالر فنڈنگ ملی تھی۔یہ فنڈنگ آئی ایم ایف سے ملنے والے ایک ارب بیس کروڑ کے علاوہ ہے۔
ان اعدادوشمار سے لگتا یہی ہے کہ پاکستان نے بیرونی فنڈنگ کا جو تخمینہ لگایا ہے‘ وہ بآسانی پورا ہو جائے گا کیونکہ جولائی اور اگست کے دو ماہ میں پاکستان پانچ ارب سے زائد فنڈنگ حاصل کرنے میں کامیاب رہا ہے جب کہ گزشتہ سال اسی عرصہ میں یہ حجم 43کروڑ 90لاکھ ڈالر تھا۔اس کا مطلب ہوا کہ جولائی اور اگست کے دو مہینے میں پاکستان نے غیرمعمولی کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ ملک کے اندر بھی حکومت نے ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمت کو کنٹرول کیا ہے جب کہ کھاد، آٹا، چینی وغیرہ کی اسمگلنگ اور ذخیرہ اندوزی کی روک تھام کے لیے بھی سخت اقدامات کیے ہیں جس کے نتائج بھی سامنے آ رہے ہیں۔
اخباری اطلاعات کے مطابق یوریا کی اسمگلنگ اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کریک ڈائون کے مثبت نتائج یوں سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں کہ مارکیٹ میں کھاد کی قیمتیں معمول پر آنا شروع ہوگئی ہیں، اس وقت کھاد کے بیگ کی قیمت 500سے 600روپے تک کم ہوگئی ہے۔
وزارتِ داخلہ کی رپورٹ کے مطابق کھاد کی ذخیرہ اندوزی میں90سے زائد مڈل مین ملوث تھے جن کی وجہ سے مارکیٹ میں مصنوعی قلت اور قیمتوں میں اضافہ ہورہا تھا، یوریا کی طلب کو پورا کرنے کیلیے فرٹیلائزرز پلانٹس کو مکمل استعداد سے چلانے کیلیے تمام فرٹیلائزرز پلانٹس کو گیس کی بلا تعطل فراہمی کو یقینی بنانے کی حکومتی کوششوں کے باوجود کھاد کی مصنوعی قلت پیدا کی گئی۔
پاکستان کی معیشت کو ذخیرہ اندوزی سے بھی زیادہ نقصان اسمگلنگ پہنچا رہی ہے‘ اسمگلنگ ایک ایسا دھندا ہے جس کے ذریعے غیرقانونی تجارت کی جاتی ہے اور غیرقانونی منافع کمایا جاتا ہے۔ اسمگلنگ کے ذریعے چیزیں امپورٹ بھی ہوتی ہیں اور ایکسپورٹ بھی ہوتی ہیں‘ دونوں صورتوں میں قومی خزانے کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا البتہ غیرقانونی دولت کا ارتکاز ہوتا رہتا ہے۔
پاکستان کی معیشت کو منشیات اور ڈرگز اسمگلنگ ‘ممنوعہ اسلحہ کی اسمگلنگ ‘ڈالر کی اسمگلنگ اور کھانے پینے کی اشیا کی اسمگلنگ مسلسل نقصان پہنچا رہی ہے۔ اس اسمگلنگ اور غیرقانونی دھندے کی وجہ سے پاکستان میں بلیک اکانومی کا سائز مسلسل بڑھ رہا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ دستاویزی اور قانونی معیشت سکڑ رہی ہے‘ بلیک اکانومی کا سائز خطرناک حد تک بڑھ گیا ہے جس کی وجہ سے ملک کا انتظامی ڈھانچہ کمزور پڑ رہا ہے ‘پاکستان پر غیرملکی قرضوں کا دبائو اور حجم بھی غیرمعمولی حد تک بڑھ چکا ہے ‘اس صورتحال سے نکلنے کے لیے غیرمعمولی اقدامات کی ضرورت ہے ‘پاکستان کے ہمسایہ ممالک کے ساتھ سرحدوں کی نگرانی مزید سخت کرنے کی ضرورت ہے۔
حکومت اب خاصی اثرانگیزی سے کام کر رہی ہے ‘اس کا ثبوت یہ ہے کہ پاکستان میں انٹر بینک ہی نہیں بلکہ اوپن مارکیٹ میں بھی ڈالر کی قیمت میں کمی آئی ہے۔ حوالہ ہنڈی کا کام کرنے والے ‘ امپورٹڈ کار ڈیلرز، سونے کے تاجروں سمیت دیگر مشکوک شعبوں کے خلاف سرکاری اداروں کے مسلسل کریک ڈائون کے باعث روپے کی قدرمستحکم ہونے کا عمل جاری رہا۔
اسٹیٹ بینک کی غیرقانونی سرگرمیوں میں مبینہ طور پر ملوث ہر کیٹیگری ایکسچینج کمپنیوں کی سخت مانیٹرنگ اور تادیبی کارروائیوں، فارن کرنسی اسمگلنگ کے مشکوک شعبوں کی نگرانی کے بعد انٹیلی جنس بیسڈ کارروائیوں ور گرفتاریوں سے ڈالر کے اسمگلروں کی کمر ٹوٹ گئی ہے، جس سے مارکیٹ میں ڈالر کی سپلائی میں بتدریج اضافہ ہورہا ہے جو ڈالر کے مقابلے میں روپیہ کو تگڑا کررہا ہے، موجودہ حالات میں ڈالر کی اندھا دھند خریداری کرنے والے مارکیٹ سے غائب ہوگئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے ڈیڑھ دو ماہ میں ڈالرجو 300روپے سے اوپر چلا گیا تھا‘ اس کے نرخ اب 288روپے کے قریب ہو چکے ہیں اور اس میں مزید کمی ہو رہی ہے۔
ماہرین کا اندازہ ہے کہ ڈالر کی قیمت ڈھائی سو روپے سے بھی نیچے چلی جائے گی۔ یہ ایک خوش آئند بات ہے ‘ ڈالر کی اسمگلنگ پاکستانی معیشت کو ڈانواں ڈول کر رہی تھی ‘ یہ غیر قانونی کام کرنے والوں کے خلاف مزید سختی برتنی چاہیے ‘اسی طرح گولڈ کا کاروبار کرنے والوں کا ڈیجیٹل ڈیٹا تیار کرنا بھی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
پاکستان میں روزانہ گولڈ کی خریدوفروخت کتنی ہوتی ہے ‘ اس کا پورا ریکارڈ ہونا چاہیے ‘ پاکستان کے اندر گولڈ کتنا امپورٹ ہوتا ہے اور زیورات کی شکل میں کتنا ایکسپورٹ ہوتا ہے‘ اس کا بھی روزانہ کی بنیاد پر ڈیجیٹل ریکارڈ ہونا چاہیے ‘ گولڈ امپورٹرزاور گولڈ کے زیورات فروخت کرنے والے ریٹیلرز کا ایسا کمپیوٹرائزڈ میکنزم ہونا چاہیے ‘ جس کے ذریعے بورڈ آف ریونیو کے سسٹم میں خریدوفروخت کا ریکارڈ آٹو میٹک درج ہو جائے۔ اس طرح پاکستان کی معیشت کو دستاویزی بنانے کا ایک بڑا مرحلہ طے ہو جائے گا۔
ادھر ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ متعددپاور پلانٹس کو کوئلے کی بجائے ایل این جی اور فرنس آئل پر چلایا گیا ہے ۔ اس کے نتیجے میں صارفین پر 28 ارب روپے کا اضافی بوجھ بھی پڑا ہے۔ اس بات کا اظہار نیپرا کی جانب سے اگلے روز منعقد کی گئی عوامی سماعت کے دوران کیا گیا۔خبر میں بتایا گیا ہے کہ سماعت کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ متعدد پاور پلانٹس کو ایل این جی اور فرنس آئل پر چلایا گیا ہے جس کے اخراجات زیادہ آتے ہیں جب کہ درآمد شدہ سستے کوئلے کے استعمال کو نظرانداز کیا گیا۔
بہرحال معاملہ جو بھی ہے اس کی تحقیقات ہونی چاہیے کیونکہ بجلی کے نرخ غیرمعمولی حد تک زیادہ ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ مختلف قسم کے ٹیکس عائد ہونے کی وجہ سے بھی بجلی کے بلز زیادہ ہوئے ہیں ‘حکومت کو اس حوالے سے ضرور کام کرنا چاہیے۔پاکستان کو اس وقت معاشی و خارجی استحکام کی ضرورت ہے۔
نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والے انٹرویو میں یہ واضح کیا ہے کہ پاکستان بڑی طاقتوں کے مقابلے میں فریقین کا انتخاب کیے بغیر اپنے مفادات پر توجہ دے رہا ہے۔ پاکستان ،یوکرین اورروس کی جنگ میں غیرجانبدارہے۔ پاکستان ایسی راہ پر گامزن ہے، جس کا انتخاب مغرب، روس اور چین کے درمیان مسابقت سے بچنے کے لیے کیا گیا ہے۔ پاکستان ،امریکا اور چین کی بڑھتی چپقلش میں کسی کیمپ کاحصہ بننے کا ارادہ نہیں رکھتا۔نگران وزیراعظم کی بات بالکل درست ہے ‘پاکستان عالمی محاذ آرائی سے جتنا دور رہے گا اتنا ہی بہتر ہو گا۔
امریکا اور چین کے درمیان تجارتی چپقلش میں پاکستان کو کسی بلاک یا ملک کے ساتھ نتھی نہیں ہونا چاہیے۔سرمائے اور منافع کے لیے امریکا اور چین ہی نہیں بلکہ بھارت اور چین بھی ایک دوسرے کی مارکیٹس پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جب کہ پاکستان ان میں سے کسی کی مارکیٹ کا شیئر ہولڈر نہیں ہے۔ اس لیے پاکستان کو سرمائے اور منافع کی اس لڑائی میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر پاکستان اس لڑائی میں کسی کا حصہ نہیں بنتا تو اس پر امریکا اور چین سمیت کسی بھی ملک کو کوئی اعتراض بھی نہیں ہو گا۔
ادھر آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے کہا ہے کہ ہمیں اپنے ملک کی ترقی و استحکام اور امن کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کو بڑھانا ہوگا، پاک فوج خیبرپختونخوا کی ترقی اور استحکام کو یقینی بنانے کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کرتی رہے گی تاکہ معاشی ترقی کی رفتار کو بڑھایا جا سکے۔
آرمی چیف نے بدھ کو اپنے دورہ پشاور میں خواتین سمپوزیم اور صوبائی ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کی۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف نے خواتین سمپوزیم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں خواتین نے ملکی ترقی میں مثبت اور اہم کردار ادا کیا ہے، ملکی ترقی میں خواتین کا کردار نہایت اہمیت کا حامل ہے۔
پاکستان کے لیے بدلتے ہوئے حالات میں اعتدال کی راہ ہی سب سے مناسب راستہ ہے۔ فی الحال پاکستان نہ تو تجارتی جنگ کا سٹیک ہولڈر ہے اور نہ ہی عالمی اسٹریٹیجک چپقلش کا سٹیک ہولڈر ہے ۔ پاکستان کے لیے سب سے اہم اپنی سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے اور اپنی معیشت اور کاروبار کو بچانا ہے ‘اگر پاکستان کی حکومت اس حوالے سے دیر پا اور ٹھوس پالیسی اختیار کرے تو پاکستان اپنی معاشی جنگ بھی جیت سکتا ہے اور خوشحالی کی منزل تک بآسانی پہنچ سکتا ہے۔
The post سب سے پہلے معیشت appeared first on ایکسپریس اردو.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں