ایک دونہ،دونہ۔دو دونے چار۔چار کے پیچھے الف لگائیں تو اچار۔اور آگے (ہ) لگائیں تو چارہ اور دونوں ہی کھانے کی چیزیں ہیں اچار اور چارہ آپ چاہیں تو اچار کھائیں چاہیں تو چارہ۔ اور اگر چاہیں تو اچار کے ساتھ چارہ اور چارے کے ساتھ اچار ملاکر بھی کھاسکتے ہیں۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ آج ہم یہ کیا اول فول اناپ شناپ اور بے پرکی ہانک رہے ہیں۔تو آپ ٹھیک سمجھ رہے ہیں آخر ہم کریں بھی کیا؟ کالم کے لیے نیا موضوع لائیں کہاں سے جب کہ پرانے موضوعات کو پیٹ پیٹ کر منہ میں چھالے پڑگئے کان پک گئے ہیں زبان’’چمڑہ‘‘ ہوگئی ہے اور قلم گھس گھس کر ناڑا ڈالنے کی سلائی ہوگئی ہے۔
وہ پری کہاں سے لاؤں تیری دلہن جسے بناؤں
وہی لیڈر ہیں وہی بیانات ہیں وہی مہنگائی ہے، وہی قرضے ہیں، بجلی ہے ،گیس ہے، پٹرولیم ہے۔ وہی دنبہ ہے، وہی کتا ہے، وہی وحشی ہیں جو عوام پر چھوڑے ہوئے ہیں۔مزے کی بات یہ ہے کہ ایک موٹی تازی میڈیا بھی ہے۔
چینل بھی ہیں اخبار بھی ہیں لیکن ’’خبر‘‘کوئی کم سے کم ہم نے تو گزشتہ چار پانچ خصوصاً اور 75سال سے عموماً کوئی’’خبر‘‘نہیں سنی ہے۔کچھ مرغی بان جنھیں دانا دانشور بھی کہتے ہیں بیانات کے انڈوں پر اپنی دانش کی مرغیاں بٹھا کر چوزے چوچے نکالتے ہیں لیکن ان کے پاس بھی انڈے چوزے اور مرغی کے سوا اور کچھ نہیں۔انڈے سے چوزہ،چوزے سے مرغی اور مرغی پھر انڈا۔ایک لطیفہ نما پہیلی بوجھیے۔ آپ خالی ٹوکری میں کتنے انڈے ڈال سکتے ہیں بوجھیے بوجھیے،خالی ٹوکری میں کتنے انڈے۔ پہیلی کی کلید ’’خالی‘‘ ہے۔ہمیں پتہ ہے آپ دانا دانشوری کے مارے ہوئے لوگ ہیں اس لیے جواب نہیں دے سکیں گے۔اس لیے ہم ہی بتائے دیتے ہیں۔
صرف ایک انڈا۔کیونکہ ایک انڈا ڈالنے کے بعد ٹوکری چاہے کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو ’’خالی‘‘تو نہیں رہتی۔ویسے داد دینا پڑے گی دانا دانشوروں کو۔ ٹوکری کو خالی سمجھ کر اس میں انڈے ڈالتے چلے جا رہے ہیں۔لیکن صرف نظر کا دھوکا ہے۔
ان کے پاس بھی صرف ایک انڈا ہے جو ٹوکری میں ڈال رہے نکال رہے ہیں پھر ڈال رہے ہیں اور پھر نکال رہے ہیں۔ ایک بے وضو سا لطیفہ ہے جسے ہم تھوڑا بہت ’’تیمم‘‘ کرتے ہیں۔ایک شخص نے دوسرے سے شرط باندھی کہ اگر تم بیس مرتبہ’’چھینک‘‘مارو تو میں تجھے ایک روپیہ دوں گا۔
دوسرے نے چھینکوں کا سلسلہ شروع کیا پندرہ سولہ تک تو رپیڈ رہا لیکن پھر دشواری ہونے لگی لیکن پھر بھی زور لگا کر ’’ہیا‘‘کرتا رہا۔شرط لگانے والے کی توقع کے برعکس آخر کار اس نے بیس چھنکیں پوری کردیں،دوسرے کا ارادہ اسے قطعی ایک روپیہ دینے کا نہیں تھا بولا تم نے بیس چھنکیں کہاں ماری ہیں ایک ہی چھینک کو اندر باہر کرتے رہے۔ہماری ایک دانا دانشور سے شناسائی ہے کیونکہ وہ اکثر اپنی دانش ہمیں مارتا رہتا ہے۔
اس کا کہنا ہے کہ اس نے یہ ساری دانش احمقوں سے سیکھی ہے اس لیے ہم بھی اس کی دانش سے حماقت سیکھتے ہیں۔یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ کس کے لیے یہ ’’مسائل‘‘ ہوں گے ان کے لیے تو دودھیل گائیں ہیں اور کوئی پاگل ہی ہوگا جو اپنی دودھیل گائے کو کاٹ کر لوگوں کو کھلائے۔یہ جو بجلی کا سسٹم ہے جو گیس کا نام ہے پٹرولیم کی تجارت ہے۔کرپشن کی انڈسٹری ہے، انھیں کون چلا رہاہے۔اور اگر انھیں ختم کیاگیا تو دو دھیل گائے کس کی مرے گی؟ بھلا وہ شاخ بھی کاٹتا ہے جس پر بیٹھ کر وہ پھل کھارہا ہو، پھل سے یاد آیا۔ ایک لڑکا کسی باغ میں درخت پر چڑھ کر پھل چوری کر رہاتھا۔
رکھوالے نے اس دیکھ لیا۔سرزنش کرتے ہوئے بولا۔ شرم نہیں آتی پھل چوری کرتے ہوئے اُتر آ۔میں تمہارے باپ سے جاکر تیری شکایت کروں گا۔لڑکے نے کہا۔کہیں جانے کی ضرورت نہیں۔میرا باپ بھی دوسرے درخت پر موجود ہے۔ہائے یہ نادان دانا دانشور۔
The post یہ نادان دانا دانشور appeared first on ایکسپریس اردو.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں