نگران حکومت کو2ماہ ہو چلے ہیں ۔اِس دوران مہنگائی کم ہُوئی ہے نہ بے روزگاری۔ عوام کے معاشی حالات بلکہ پہلے سے بدتر ہُوئے ہیں ۔ہر سطح پرمہنگائی مزید بڑھی ہے۔ ادویات کی قیمتوں میں مزید کمر شکن اضافہ ہُوا ہے۔
بجلی ، گیس اور پٹرول کی قیمتیں مزید اوپر چلی گئی ہیں ۔ ایسے میں گزشتہ روز لندن میں آکسفرڈ یونیورسٹی کی ایک طالبہ سے نگران وزیر اعظم نے مکالمہ کرتے ہُوئے ارشاد فرمایا ہے کہ ’’پاکستان میں مہنگائی کم ہُوئی ہے ۔‘‘ جس نے بھی یہ ارشادِ گرامی سُنا ہے، انگشت بدنداں رہ گیا ہے ۔
نگران وزیر اعظم 12روزہ طویل غیر ملکی دَورے کے بعد واپس وطن آچکے ہیں، ایسے میں حیران کن بات یہ بھی دیکھنے میں آئی ہے کہ نگران وفاقی حکومت میں مزید اضافہ ہُوا ہے ۔ جن دو نئے وزرا کا وفاقی کابینہ میں اضافہ کیا گیا ہے۔
جب وفاقی کابینہ کے چند ارکان بارے شکایات سامنے آنا شروع ہُوئیں کہ وہ ایک پارٹی کی طرف محبت بھرا گوشہ رکھتے ہیں تو اچانک نگران وزیر اعظم اور نگران وفاقی وزیر داخلہ کی جانب سے نواز شریف کی مبینہ پاکستان آمد بارے ایسے بیانات سامنے آگئے جن سے نون لیگی وابستگان کو ’’دھچکا‘‘ لگا۔
یہ بیانات دراصل نگرانوں کی جانب سے پلڑا’’ بیلنس‘‘ کرنے کا حربہ تھا۔ اور جب نون لیگ کی جانب سے نگران وفاقی وزیرداخلہ کے بیان پر سخت گرفت کی گئی تو نگران وزیر داخلہ یو ٹرن لے گئے۔اب نگران غیر مبہم الفاظ میں یہ اسلوب اپنا رہے ہیں کہ ’’نواز شریف کی واپسی پر قانون فیصلہ کرے گا۔‘‘ یہ بین السطور رویہ ہی نگرانوں کو سُوٹ کرتا ہے ۔نگران وزیر اعظم سے منسوب یہ بیان بھی سامنے آیا تھا کہ ’’ چیئرمین پی ٹی آئی کے بغیر بھی الیکشن ہو سکتے ہیں۔‘‘جب پی ٹی آئی کی جانب سے سخت ردِ عمل سامنے آیا تو یہ کہہ دیا گیا کہ ’’پی ٹی آئی سمیت تمام جماعتیں الیکشن لڑنے کے لیے آزاد ہیں۔‘‘ کمال تماشہ ہے ! بعد ازاں نگرانوں کی جانب سے یہ کہہ دینا کہ ’’ نگران وزیر اعظم کاانٹرویو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا‘‘کسی سنجیدگی کا مظہر نہیں ہے !
آٹھ دن قبل نگران وفاقی وزیر تجارت، گوہر اعجاز صاحب، نے کراچی میں اعلان کیا کہ ’’یکم اکتوبرکو پٹرول کی قیمت کے حوالے سے عوام کو خوشخبری سنائیں گے ۔‘‘ آج یکم اکتوبر2023 کی صبح جب یہ سطور رقم کی جارہی ہیں، خبر آئی ہے کہ پٹرول کی قیمت میں8روپے فی لٹر کمی کر دی گئی ہے۔
پچھلی بار نگران حکومت نے پٹرول کی قیمت میں26روپے فی لٹر اضافہ کیا تھا۔ عوام نے اِس پر بجا طور پر احتجاج کیا تو نگران حکومت کی جانب سے ٹکا سا جواب آیا تھا: ’’ڈالر مہنگا ہورہا ہے ۔ پٹرول مہنگا خرید کر ہم سستا نہیں بیچ سکتے ۔‘‘عوام دل تھام کررہ گئے۔
جب سے یہ’’ نگران مہربان‘‘ تشریف لائے ہیں، پٹرول کی قیمت میں58روپے فی لٹر اضافہ کر چکے ہیں۔اب اگر8 روپے فی لٹر کمی کر بھی دی گئی ہے تو یہ کمی اور ریلیف کوئی قابلِ ذکر نہیں ہے ۔ 58روپے فی لٹر بڑھا کر صرف 8روپے کم کرنا کہاں کا ریلیف ہے؟یہ تو اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہے۔ ایسے میں ہمیں پنجابی کی وہ ضرب المثل یاد آ گئی ہے جس میں ’’سخی‘‘ اور شُوم‘‘ کا فرق بیان کرتے ہُوئے کسی کو ’’ترنت‘‘ جواب دیا جاتا ہے ۔
نگرانوں نے اپنے اقدامات، فیصلوں اور بیانات سے یہ ثابت کیا ہے کہ عوام کو کوئی بھی معاشی ریلیف نہ دینے میں وہ پچھلی باقاعدہ اور منتخب حکومتوں سے کم نہیں ہیں ۔کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ نگران پٹرول کی قیمت میں مزید اضافہ نہیں کریں گے ۔
وفاقی اور صوبائی نگران حکومتوں کے پاس کوئی بھی عوامی مینڈیٹ نہیں ہے ۔اس لیے عوام کو اِن سے کوئی بڑی توقع وابستہ بھی نہیں کرنی چاہیے۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ پنجاب کی نگران حکومت نے لاہور ہائیکورٹ کے11ججوں کو36کروڑ روپیہ بِلا سود قرض دے بھی دیا ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ اگر نگران صاحبان کسی کی دستگیری اور اعانت کرنا چاہیں تو بآسانی کر سکتے ہیں مگر وہ ادارہ، گروہ یا شخص طاقتور ہونا چاہیے۔عوام کے لیے نگرانوں کے پاس سہولت کاری اور خوشخبری دینے کی گنجائش ہے نہ استطاعت!
اِس کے باوصف نگران مُصر ہیں کہ وہ عوام کو خوشخبری اور سہولت فراہم کرنے کی طاقت اور استطاعت رکھتے ہیں ۔ مثال کے طور پر چند دن پہلے یہ خبر کہ ’’ پاکستان نے تمام غیر قانونی مہاجرین کو اُن کے وطن واپس بھیجنے کا فیصلہ کرلیا ہے ۔ اِن غیر قانونی افغان مہاجرین کی تعداد 11لاکھ بتائی جا رہی ہے ۔
نگران وفاقی کابینہ نے ( مبینہ طور پر) اِس فیصلے کی منظوری بھی دے دی ہے ۔‘‘یہ حوصلہ افزا خبر ’’دی ایکسپریس ٹربیون‘‘ اور روزنامہ ’’ایکسپریس‘‘ نے بطور لیڈ اسٹوری شایع کی ہے ۔ اگرچہ نگران حکومت نے مذکورہ فیصلے کی تاحال باضابطہ تصدیق نہیں کی ہے اور نگران وفاقی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی بھی اِس ضمن میں مہر بہ لب ہیں ۔
ہم مگر سمجھتے ہیں کہ اگر اِس فیصلے پر جلد از جلد عمل ہو جائے تو یہ نگران حکومت کی جانب سے پاکستانی عوام کے لیے حقیقی معنوں میں ایک عظیم خوشخبری ہوگی ۔ سارا پاکستان اِس فیصلے پر عملدرآمد کے بعد ریلیف محسوس کرے گا ۔
پاکستان کے ہر کونے کھدرے میں چھپے اور بروئے کار لاکھوں کی تعداد میں غیر قانونی افغان مہاجرین ارضِ پاکستان اور پاکستانی عوام کے لیے انتہائی منفی اور ضرررساں ثابت ہو رہے ہیں ۔عید ِ میلادالنبیؐ کے مبارک دن(29ستمبر2023) مستونگ ( بلوچستان) میں خود کش حملہ میں 59 پاکستانیوں کی شہادت تازہ ترین سانحہ ہے۔
ہر کوئی جانتا ہے کہ یہ غیر قانونی اور کسی بھی دستاویز کے بغیر افغان مہاجرین پاکستان میں ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث پائے گئے ہیں ۔ ’’ٹی ٹی پی‘‘ اور ’’ٹی ٹی اے‘‘ اِنہی کے توسط سے اپنے گھناؤنے منصوبوں کو آگے بڑھا رہے ہیں ۔
مبینہ طور پر یہ ڈالر، چینی، کھاد ، گندم ، آٹے کی اسمگلنگ میں ملوث پائے جا رہے ہیں۔9مئی کے المناک سانحہ میں بھی کئی افغان مہاجرین ملوث پائے گئے ۔ قومی میڈیا میں اُن کے نام بھی سامنے لائے گئے ۔
ہر رُخ اور ہر لحاظ سے یہ پاکستان پر بوجھ بن چکے ہیں ۔ اب جب کہ افغانستان میں طالبان کی مبینہ نورانی ’’ امارتِ اسلامیہ‘‘ معرضِ عمل میں آ چکی ہے، لاتعداد افغان مہاجرین کا پاکستان میں ٹکنا تو ویسے بھی غیرت کے منافی ہے۔
The post نگران حکومت سے خوشخبری سننے کی منتظر عوام appeared first on ایکسپریس اردو.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں