وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ملک کی موجودہ معاشی صورتحال بجلی چوری جیسے مسئلے کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ ملک کو اربوں ڈالر کا نقصان پہنچانے والوں کو قرار واقعی سزا دی جائے گی، جنریشن کمپنیز سرکاری خزانے پر بوجھ ہیں جن کی نجکاری کے لیے کام فوری طور پر شروع کیا جائے۔
دوسری جانب صدر مملکت آصف علی زرداری نے ملک جیمز اینڈ جیولری سیکٹر کی ترقی پر توجہ دینے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ ویلیو ایڈڈ مصنوعات کی برآمد سے پاکستان کو قیمتی زرمبادلہ کمانے میں مدد مل سکتی ہے۔
بلاشبہ مستحکم شرح مبادلہ کے ساتھ ملکی اقتصادی سرگرمیوں میں بحالی بیرونی شعبے کے استحکام میں معاون ثابت ہورہی ہے۔ توقع ہے کہ برآمدات اور ترسیلات زر میں اضافے کے لیے ان پیشرفتوں اور پالیسیوں کا تسلسل مالی سال 24 کی دوسری ششماہی کے دوران بہتر تجارتی توازن اور کرنٹ اکاؤنٹ میں مزید بہتری کرے گا۔
نئی حکومت کو سب سے بڑا چیلنج معاشی مشکلات اور توانائی بحران ہے، خطے میں بجلی اور گیس سب سے مہنگی پاکستان میں ہے جس کی وجہ سے عام آدمی گھریلو اور کمرشل بل بھرنے کے قابل نہیں رہا اور مہنگی ترین بجلی کی بلاتعطل فراہمی بھی حکومت کے بس کی بات نہیں ہے کیونکہ بجلی چوری اور لائن لاسز کی مد میں سالانہ اربوں روپے حکومت کو جیب سے خرچ کرنے پڑتے ہیں۔ اس کے علاوہ مہنگے ترین بجلی معاہدوں کے باعث بھی قومی خزانے پر سب سے بڑا بوجھ بجلی کمپنیوں کو ادائیگیوں کا ہے۔ اسی وجہ سے قومی آئل کمپنی پاکستان اسٹیٹ آئل بھی بحران کا شکار رہتی ہے۔
گیس کے بلوں میں بھی بے پناہ اضافہ ہوچکا ہے لیکن گیس کی بندش بھی معمول کا حصہ ہے۔ توانائی کے بحران کے لیے بھی متبادل ذرایع دیکھنا ہوں گے جن کا حل پنجاب اور دوسرے صوبوں کے علاقے جہاں نہروں کا جال بچھا ہوا ہے، ان پر ہائیڈل پاور پلانٹس، جوہری توانائی، سولر اور ونڈ ٹیکنالوجی کی طرف توجہ دینا ہے تا کہ توانائی کے حصول کے سستے ترین ذرایع سے حاصل توانائی پر انحصار کی طرف بڑھا جائے۔
حقائق سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ پاکستانی شہری قومی آمدنی کا28 فیصد ٹیکسوں کی صورت میں ادا کر رہے ہیں۔ ہم اپنے ذاتی تعیشات اور غیر ترقیاتی اخراجات میں کمی نہیں کرتے ہیں۔ ہمیں اس سیاسی بصیرت اور قوت فکر کی ضرورت ہے جس کے تحت ہم عوام کو دھوکے میں نہ رکھ سکیں۔ جب تک ہم حقائق سے آنکھیں چراتے رہیں گے یہی کچھ ہوتا رہے گا جو عرصہ دراز سے ہورہا ہے۔ سب اچھا ہے کی گردان ہمیں خوش فہمی میں تو مبتلا کرسکتی ہے لیکن اصل حقائق یہ ہیں کہ چالیس فیصد بچے جنھوں نے آگے چل کر ملک و قوم کا نام روشن کرنا ہوتا ہے۔
پانچ سال کی عمر میں کم خوراکی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ چالیس فیصد عوام صاف پانی کی عدم دستیابی سے موذی امراض کا شکار ہو جاتے ہیں اور اتنی ہی تعداد میں لوگ خط غربت کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور اس غربت نے ان کی زندگی کا جغرافیہ تبدیل کردیا ہے۔
اسٹیٹ بینک نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ بلند شرح سود نے مارک اپ کو بڑھایا جس سے مشکلات کم ہونے کے بجائے مزید بڑھیں، ایم او ایف آؤٹ لک رپورٹ میں اس بات کی توقع ظاہر کی کہ مالی سال 24 کی دوسری ششماہی کے دوران معاشی سرگرمیاں مضبوط ہوں گی، درست اور دانشمندانہ اقتصادی پالیسیوں کے مستقل نفاذ اور ملکی اور بیرونی دونوں محاذوں پر استحکام سے شرح نمو کے متعین کردہ اہداف کی تکمیل ممکن ہے۔
رپورٹ میں اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ جلد خراب ہونے والی اشیاء جیسے سبزی اور فروٹ کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے ساتھ ساتھ یوٹیلیٹی لاگت (بجلی اور گیس دونوں) نے مہنگائی کے دباؤ میں اضافہ کیا، بھارت سے برآمدات کی پابندی کے باعث پیاز کے برآمدی آرڈر بڑھ گئے جس سے مقامی مارکیٹ میں اس کی قلت پیدا ہوئی جس نے مہنگائی کو مزید بڑھایا، مخصوص اجناس جن میں ٹماٹر وغیرہ شامل ہیں کی سپلائی میں تعطل آیا، جس سے اس کی قیمت میں بھی اضافہ ہوا۔
حکومت کے مطابق مجوزہ بجٹ کا خسارہ پانچ ہزار ارب روپے کے قریب ہوسکتا ہے جو کل بجٹ کا نصف بنتا ہے، یہ کل خام پیداوار کا دس فی صد ہے جسے پانچ فی صد پر لانا بہت ضروری ہے مگر نئے ٹیکسز لگائے بغیر بجٹ خسارہ کم کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ حکومت کی آمدنی ٹیکسوں سے ہوتی ہے یا ان کاروبار سے جو عوام کے ٹیکسوں کے پیسہ سے حکومت کرتی ہے (جو اکثر و بیشتر منافع کے بجائے نقصان کررہے ہوتے ہیں)۔ ٹیکس دو طرح کے ہوتے ہیں: بلا واسطہ اور بالواسطہ۔ بالواسطہ ٹیکس عام عوام پر بری طرح سے اثر انداز ہوتے ہیں۔
عام خرید و فروخت پر ٹیکس یعنی جنرل سیلز ٹیکس اس کی ایک مثال ہے۔ ایکسائز، کسٹم ڈیوٹیز اور ویلیو ایڈڈ ٹیکس بھی بالواسطہ ٹیکسز کے زمرے میں آتے ہیں۔ حکومت کے لیے مشکل فیصلہ بلاواسطہ یا براہ راست ٹیکس کا حصول ہوتا ہے جیسے انفرادی اور کمپنیوں کی آمدنی اور جائیداد کی خرید و فروخت پر ٹیکس۔ سرمایہ کی غیر قانونی بیرون ملک منتقلی کو روکا جائے۔ ایران اور افغانستان سے اسمگلنگ کو ختم کیا جائے خواہ اس کے لیے بارڈرز کو سیل کرنا پڑے۔
تنخواہ کے علاوہ اضافی فوائد جو بجلی، گیس، پٹرول، ادویات، سفر وغیرہ کی صورت میں حکومتی اور ریاستی مشینری کو حاصل ہیں وہ کسی طرح بھی اس وقت ہماری معیشت سے میل نہیں کھاتے۔ عوامی نمایندوں اور نوکر شاہی سے فی الفور اضافی مراعات واپس لی جائیں، یہ حالات بہتر ہونے پر دوبارہ دی جاسکتی ہیں۔ پنشن پالیسی بدلنے کی ضرورت ہے، وفاق اور صوبوں کو ملا کر ایک ہزار ارب کے قریب پنشن میں چلے جاتے ہیں۔
بیمار یعنی نقصان میں جانے والے سرکاری ادارے صاف اور شفاف بولی کے ذریعہ نجی مالکان کو فروخت کیے جاسکتے ہیں۔ صنعتی اور زرعی پالیسی کو ازسر نو تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ زرعی ٹیکس کا نفاذ وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ویلیو ایڈڈ ٹیکس (وی اے ٹی) کا درست نفاذ حالات کا تقاضا ہے۔ وہ حکومتی ادارے جو درآمدات و برآمدات سے ڈیل کرتے ہیں، ان کی استعداد کار بڑھانے کی ضرورت ہے۔
برآمدات بڑھانے کے لیے ٹیکسوں میں چھوٹ سے لے کر توانائی کی مد میں رعایت دی جاسکتی ہے تاکہ دوسرے ملکوں سے مسابقت پیدا ہوسکے اور برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ ہو۔ زراعت اور صنعتوں کے لیے بجلی اور گیس کے زیادہ سے زیادہ استعمال پر کم سے کم قیمت کے اصول پر عمل کیا جائے۔
شرح سود میں اضافہ سرمایہ کاری کی رفتار کو سست کردے گا۔ سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے شرح سود کم رکھی جائے۔ افراط زر پر کنٹرول اور روپے کی قدر میں اضافہ کے لیے اسٹیٹ بینک اپنا کردار ادا کرے۔ پرتعیش اور لگژری اشیاء پر حکومت پہلے ہی پابندی عائد کرچکی ہے مگر اس کا دائرہ کار اور بڑھایا جاسکتا ہے، صرف ان درآمدات کی جو ملکی برآمدات کی پیداوار بڑھانے میں مدد گار ہوں جیسے خام مال اور جدید مشینری کی نہ صرف اجازت ہو بلکہ انھیں ٹیکس میں بھی خاطر خواہ چھوٹ دی جائے۔ اس سے درآمدات و برآمدات میں جاری خسارہ کم کرنے میں مدد ملے گی۔
اس سال قرضوں کی ادائیگی اور دیگر ضروریات کے لیے پاکستان کو پینتیس ارب ڈالرز کی ضرورت ہوگی۔ برآمدات میں اضافہ کیے بغیر یہ ہدف پورا کرنا ممکن نہیں۔ معاشی بحران کے حل کے لیے ہمیں پہلی ترجیح زراعت اور کسان کو دینی ہوگی کیونکہ پاکستان بنیادی طور پر زرعی ملک ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ کسان کو کپاس، گنے اور گندم کی مناسب قیمت ملنی چاہیے اور کھاد بیج اور زرعی ادویات کی آسان ترین شرائط پر فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ زرعی مشینری کی فراہمی کے لیے وفاق اور صوبائی حکومتیں مل کر مناسب ترین طریقہ کار سے کسان دوستی کا ثبوت دیں۔
اس کے علاوہ ٹیوب ویلوں کے لیے فلیٹ ریٹ پر بجلی کی فراہمی بھی زرعی ترقی میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔ زراعت میں ترقی سے خوراک میں خودکفالت حاصل ہوگی اور ساتھ ساتھ بڑے شہروں پر آبادی کا دباؤ بھی کم ہوگا۔ ترقی پذیر ممالک ہمیشہ یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ سیاسی اور معاشی مسائل کی اصل وجہ عالمی طاقتیں ہیں نہ کہ داخلی اور سیاسی ترجیحات۔ اس سے ہم خود کو تو تسلی دے سکتے ہیں لیکن وینٹی لیٹر پر اکھڑتی سانسیں لیتی ہوئی معیشت کو نہیں۔ تمام تر قباحتوں کے باوجود ہم یہ بات کہہ سکتے ہیں معاملہ اس حد تک عالمی طاقتوں کا نہیں جتنا ہماری کوتاہ اندیشیوں کا ہے۔
پاکستان صرف قانون اور جمہوریت کی بالادستی سے ہی آگے بڑھ سکتا ہے اور اس میں ذاتی مفادات کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ معاشی بحران کے حل کے لیے قومی متفقہ پالیسی تشکیل دی جائے اور قومی خزانے پر بوجھ بننے والے عوامل اور شعبوں کے بارے میں دوٹوک اور جامع لائحہ عمل طے کرکے تیز ترین اقدامات کا آغاز کیا جائے جس پر تمام سیاسی جماعتیں ایک پیج پر ہوں۔
اس سلسلے میں سب سے اہم آئی پی پیز کے معاہدوں پر نظرثانی اور ان کا آڈٹ کرانے کے معاملات ہیں تاکہ ملک کو توانائی سیکٹر کی جانب سے شدید معاشی دباؤ سے خوش اسلوبی سے نکالا جاسکے۔ اس کے علاوہ ہائیڈل پاور جنریشن پر قومی پالیسی تشکیل دی جائے۔ پاکستان کو اپنے وسائل پر انحصار کرنا ہوگا اور ان وسائل کو بہتر سے بہتر جدید سائنسی طریقے اپنا کر موثر انداز سے بروئے کار لایا جا سکتا ہے۔
The post معاشی مشکلات اور توانائی بحران appeared first on ایکسپریس اردو.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں