نو منتخب وزیراعظم شہباز شریف نے وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھا لیا ہے۔ مختلف ممالک کے سربراہان نے انھیں وزیراعظم منتخب ہونے پر مبارکباد دی ہے۔
حلف اٹھانے کے چند گھنٹوں بعد ہی ملکی معیشت کی بحالی کے حوالے سے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ ہمیں ملک کی معیشت کو بہترکرنے کا مینڈیٹ ملا ہے ۔ نقصان میں جانے والے حکومتی ملکیتی اداروں کی نجکاری کی جائے گی، تاکہ یہ ادارے ملکی معیشت پر مزید بوجھ نہ بنیں۔
سب سے پہلا اور اہم مسئلہ جو نئی حکومت کو درپیش ہے، وہ بین الااقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ ایک نیا معاہدہ کرنا ہے، کیونکہ اگلے بجٹ کی تیاری اور ملک میں معاشی توازن برقرار رکھنے کے لیے مزید رقم کی ضرورت ہوگی۔
پاکستان کے موجودہ زر مبادلہ ذخائر آٹھ ارب ڈالرکے قریب ہیں، جب کہ اگلے پانچ سالوں میں سات ارب ڈالر محض بیرونی قرضوں کی مد میں ادا کرنے ہیں۔ ملک کے دیگر اخراجات اور معیشت کی بڑھوتری کے لیے درکار سرمایہ اس سے الگ ہوگا، اس لیے نئی حکومت کے پاس آئی ایم ایف سے ایک وسیع معاہدہ کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا۔ حکومت کو مہنگائی اور بے روزگاری میں کمی لانے جیسے مسائل بھی درپیش ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کہ بین الاقوامی سطح پر خوراک اور تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور دوسرے عالمی عوامل کی وجہ سے پاکستانی معیشت پر پڑنے والے منفی اثرات اور بڑھتے ہوئے تجارتی خسارے سے نمٹنے کے لیے حکومت کو کچھ ضروری اقدامات اٹھانے چاہیئیں۔
اب حکومت نے معیشت کی بہتری کے لیے سرکاری اخراجات کوکنٹرول کرنے، سبسڈیاں ختم کرنے اور ترقیاتی اخراجات کے لیے ترجیحات طے کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور منتخب سرکاری اداروں کو نجی شعبے میں دینے کا بھی منصوبہ بنایا ہے ۔ نئی حکومت کی ذمے داری تو خسارے میں جانے والے اداروں کی اصلاح اور ان کو اپنے پاؤں پرکھڑا کر کے منافع بخش بنانے کی ہونی چاہیے، لیکن یہاں تو منافع بخش اداروں کی نجکاری کا فیصلہ بھی کر لیا گیا۔
کل منافع کمانے والے ادارے اگر آج خسارے میں ہیں تو اس کی وجہ بدانتظامی ،کام چوری، زائد اسٹاف اور بدعنوانی ہے، اگر حکومت یہ راستے بند کردے اداروں کی اصلاح ہو سکتی ہے۔ ایک بار اصلاح کی کوشش توکر لی جائے، اس کے بعد نجکاری کا فیصلہ کر لیا جائے تو بہتر ہے۔
پاکستان کا تجارتی خسارہ یعنی امپورٹ اور ایکسپورٹ بہت بڑا معاشی سر درد بنتا جا رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ پاکستانی روپے کی قدر پر بوجھ پڑ رہا ہے۔ امپورٹ ایکسپورٹ میں فرق بڑھتا جا رہا ہے، اس وقت پاکستان آئی ایم ایف پروگرام میں ہے اورآئی ایم ایف نے حکومت کو سخت دباؤ میں لے لیا ہے۔
میکرو اکنامک عدم توازن، بڑھتے ہوئے قرضے، سرکاری اداروں کے خسارے، ماحولیاتی تنزلی، پبلک پرائیوٹ شراکت داری کو لاحق خطرات، صوبائی مالیاتی نظم وضبط اورگورننس کے مسائل شامل ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حالیہ برسوں کے دوران، پاکستان کو شدید چیلنجز کا سامنا رہا ہے، جس نے قوم کی برداشت کا امتحان لیا ہے۔
سیاسی منظر نامہ انتشار کا شکار رہا ہے، جس سے مختلف شعبوں میں عدم استحکام کی لہریں پیدا ہوئی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی اقتصادی میدان بدحالی کا شکار ہے، جو پہلے سے ہی پیچیدہ صورتحال کو بڑھا رہا ہے۔ آسمان کو چھوتی مہنگائی کے ساتھ، پاکستان کو درپیش معاشی مشکلات کثیر جہتی ہیں۔
نتیجتاً معاشی مشکلات کا اثر شدید طور پر محسوس کیا گیا ہے، جس سے آبادی کی قوت خرید کم ہورہی ہے اور گھریلو بجٹ دباؤکا شکارہے۔ ملکی کرنسی کی قدر میں کمی سے معاشی تناؤ مزید بڑھ گیا ہے، جس نے پہلے سے ہی کمزور معیشت کی مشکلات میں اضافہ کردیا ہے۔
آمدنی کی پیداوار میں کمی اور بڑھتے ہوئے اخراجات کے درمیان عدم توازن شہریوں اورکاروباری اداروں میں ٹیکس جمع کرنے میں یکساں طور پر ہچکچاہٹ کا باعث بنا ہے۔ یہ ہچکچاہٹ موجودہ ٹیکس کے فرق کو مزید وسیع کرتی ہے، جس سے حکومت کی محصولات وصولی کی کوششوں میں نمایاں کمی واقع ہوتی ہے۔
آمدنی اور اخراجات کے درمیان یہ فرق ایک پیچیدہ چیلنج ہے، یہی وہ صورت حال ہے جس کو دیکھتے ہوئے بین الاقوامی کریڈٹ آئی ایم ایف کا نیا پروگرام پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ بہتر کرسکتا ہے، لیکن آئی ایم ایف سے ایک نیا پروگرام حاصل کرنا پاکستان کی حکومت کے لیے بڑا چیلنج ہوگا۔
ملک میں برسہا برس سے ایک بااثر طبقہ ایسے تمام عہدوں پر قابض ہے جہاں سے اجناس کی قیمتوں حتیٰ کہ ان کی دستیابی کو بھی کنٹرول کیا جاتا ہے، چنانچہ پاکستان میں پٹرول مافیا، شوگر مافیا اور گندم مافیا الگ الگ اور ایک دوسرے کے ساتھ اتحاد اور باہمی تعاون کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ کسی ایک کے خلاف بھی کوئی موثر کارروائی نہیں ہوتی۔ ایک رپورٹ میں پاکستان کی 96 فیصد آبادی کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ سستی اور معیاری خوراک کے حصول کی متحمل نہیں ہے۔
یہ بات بالکل درست ہے بلکہ اس سے زیادہ صورت حال خراب ہے کیونکہ مہنگائی، بیروزگاری اور اشیا کی عدم دستیابی کا معاملہ اس سے بھی زیادہ بے قابو ہے۔ کثیر جہتی چیلنجوں کے پیش نظر، پاکستان ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے، جس کا مقابلہ کرنے کے لیے معاشی استحکام کی بحالی، محصولات کے سلسلے کو تقویت دینے اور مضبوط مالیاتی پالیسیوں کے قیام کے لیے مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے۔
یہ اقدامات ملک کی اقتصادی بنیادوں کو مضبوط کرنے اور اس کے شہریوں کے لیے پائیدار ترقی اور خوشحالی کی راہیں متعین کرنے میں اہم ہیں۔ درحقیقت سیاسی نظام بنیادی طور پر وقت کے ساتھ ساتھ اپنے اندر اصلاحات اور تبدیلیوں کی بنیاد پر آگے بڑھتا ہے۔
عملی طور پر سیاسی نظام بڑی طاقت ور اصلاحات چاہتا ہے جو سیاسی سطح پر سیاسی جماعتوں سمیت مجموعی طور پر سیاسی، جمہوری اور پارلیمانی نظام کو مضبوط بنائے اور لوگوں کے اس نظام پر اعتماد کو بحال کرنے میں کچھ بڑے فیصلے کرسکے۔ ادارہ جاتی سطح پر پولیس، عدلیہ، بیوروکریسی، ایف بی آر اور انتظامی اصلاحات کو اپنی قومی ترجیح کا ایجنڈہ بنانا ہوگا اور آج ہم ادارہ جاتی سطح پرجو مسائل دیکھ رہے ہیں وہ ہم سے غیر معمولی اقدامات کے متقاضی ہیں۔
ہمیں داخلی سطح پر درپیش بڑے چیلنجز میں اول بنیادی مسئلہ گورننس کا ہے ۔ گورننس کا فقدان ملک میں غیر یقینی صورتحال، مایوسی اور ریاست پر عام آدمی کے اعتماد سمیت ریاستی ساکھ کو کمزور کرنے کے باعث بنتا ہے۔
معاشی بدحالی، لوگوں کو کم روزگار کے مواقعے، معاشی تفریق یا ناہمواریوں سمیت معاشی ترقی کے امکانات کی کمی، بالخصوص کمزور طبقات میں موجود معاشی پریشانی جیسے مسائل کی موجودگی، قومی داخلی سیکیورٹی کا نظام جہاں ریاست سمیت مخصوص طبقات کے بجائے تمام شہریوں کی سیکیورٹی کو تحفظ دینا، عدالتی انصاف پر مبنی نظام میں موجود خرابیاں اور لوگوں کا انصاف یا عدالت کے نظام پر عدم اعتماد، ادارہ جاتی نظام یا بیوروکریسی کی سطح پر روایتی انداز حکمرانی بھی ہماری ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔
سیاسی، سماجی، معاشی اور قانونی اصلاحات کے ایجنڈے سے انحراف پر مبنی پالیسی، معاشرے میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی یا ریاست کے مقابلے میں متبادل ریاست قائم کرنا یا سیاسی و مذہبی، لسانی بنیادوں پر طاقت اور اسلحے کی بنیاد پر جتھے بنانا، سیاسی عدم استحکام جہاں حکمرانی کے نظام کو عملاً مضبوط کرنے کے بجائے سیاسی جماعتوں اور قیادت کی جانب سے محض ذاتیات و اقتدار پر مبنی سیاست جیسے مسائل بھی دن بدن ہمیں کمزور کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔
وقت آگیا ہے کہ ہمیں ادارہ جاتی سطح پر پولیس، عدلیہ، بیورو کریسی، ایف بی آر اور انتظامی اصلاحات کو اپنی قومی ترجیح کا ایجنڈا بنانا ہوگا ہمیں ادارہ جاتی سطح پر درپیش مسائل غیر معمولی اقدامات اور ٹھوس اصلاحات کے متقاضی ہیں ادارہ جاتی اصلاحات کے بغیر ملک کا آگے بڑھنا مشکل ہے۔
اداروں کی مکمل خود مختاری، شفافیت اور سیاسی مداخلت کے خاتمے سمیت میرٹ پر عملدرآمد کر کے ہی ہم ریاست کو درپیش مختلف مسائل، مشکلات اور بحرانوں کو کم کرسکتے ہیں جو تیزی کے ساتھ ملک کی بقاء اور سلامتی کے لیے خطرناک بنتے جارہے ہیں۔ بالخصوص عدالتی اور بیوروکریسی کی سطح پر سخت گیر اور ضروری اصلاحات ناگزیر ہوچکی ہیں، اگر ہم نے فوری طور پر اس سلسلے میں اہم اقدامات نہ اٹھائے تو بہتر حکمرانی کے باوجود ہم بڑے نتائج حاصل نہیں کرسکیں گے۔
حسب معمول متوازن خارجہ پالیسی ایک بڑا چیلنج ہوگا اور پاکستان کی نئی حکومت کو انتہائی مہارت کے ساتھ چین اور امریکا دونوں کے ساتھ برابری کے تعلقات کو فروغ دینا ہو گا۔
اسی طرح انڈیا میں انتخابات کے بعد بظاہر یہی امکان نظر آتا ہے کہ مودی زیادہ مضبوط ہوکر آئیں گے جس کے بعد ان کے ساتھ بہتر تعلقات بنانا اور ایک امن کی فضا قائم رکھنا بھی انتہائی اہم ہوگا۔ سی پیک کو آگے بڑھانے کے لیے بھی نئی حکومت کو اہم اور زیرک فیصلے کرنے ہوں گے کیونکہ اس سے ملک کی تعمیر و ترقی اور علاقائی رابطے کے لیے مستقبل کی سمت کا تعین ہوگا۔
The post مستقبل کی سمت کا تعین appeared first on ایکسپریس اردو.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں