تحریک انصاف کے رہنما عثمان ڈار کے انٹرویو کے بعد ملک میں ایک بحث چل رہی ہے۔ عثمان ڈار نے تحریک انصاف کے چیئرمین پر نو مئی کی پلاننگ اور اس میں ملوث ہونے کا الزام لگایا ہے۔ اس کے جواب میں تحریک انصاف کے مفرور رہنمائوں نے نا معلوم مقاموں سے اپنے اپنے بیانات میں عثمان ڈار کے اس الزام کی تردید کی ہے۔
انھوں نے حلف دیا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے کبھی نو مئی کے واقعات کے حوالے سے نہ تو کوئی پلاننگ کی ہے اور نہ ہی کوئی ہدایات دی ہیں۔ ایک رائے یہ ہے کہ عثمان ڈار چونکہ نامعلوم حراست میں تھے اس لیے ان کے بیان کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ پھر سوال یہ ہے کہ اگر نامعلوم حراست کے بعد دیے گئے، بیان کی کوئی حیثیت نہیں تو پھر نامعلوم مقام مفروری سے دیے گئے بیان کی کوئی قانونی حیثیت کیسے ہو سکتی ہے۔
اگر نامعلوم حراست کے بعد منظر عام پر آنے کے بعد بیان ٹھیک نہیں تو مفرو ر کا بیان درست کیسے ہو سکتے ہیں۔ وہ بھی پہلے قانون کی عدالت میں پیش ہوں پھر کوئی بات کریں۔
عثمان ڈار تحریک انصاف کے پہلے سیاستدان نہیں ہیں جنھوں نے پارٹی چھوڑی ہے۔ تحریک انصاف کی اکثریت اس وقت پارٹی چھوڑ چکی ہے۔ سارے بڑے نام تحریک انصاف چھوڑ چکے ہیں۔ آدھی سے زیادہ تحریک انصاف یا تو ملک چھوڑ چکی ہے یا مفرور ہو چکی ہے۔ اس لیے اگر دیکھا جائے تو اس وقت مقابلہ مفرور اور چھوڑنے والوں کے درمیان چل رہا ہے۔ اس صورتحال کو یوں بھی بیان کیا جا سکتا ہے کہ بھاگنے والوں اور چھوڑنے والوں کے درمیان ہی مقابلہ چل رہا ہے۔
تحریک انصاف کے رہنمائوں نے جس طرح پار ٹی سے علیحدگی کا اعلان کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے۔ اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ ایسا نہیں ہے کہ کسی بھی پارٹی پر ایسے حالات نہیں آئے ہیں ۔ جس طرح کے حالات آج تحریک انصا ف کو درپیش ہیں ایسے تمام بڑی سیاسی جماعتوں کود رپیش رہے ہیں۔ پیپلزپارٹی او رپاکستان مسلم لیگ (ن) تو ایسے حالات سے کئی بار گزرے ہیں۔
یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ جب تحریک انصاف کی مخالف سیاسی جماعتیں اور ان کے رہنما ایسے حالات سے گزر رہے تھے تو تحریک انصاف انجوائے کر رہی تھی۔ ان کا مذاق اڑا رہی تھی۔ اور اس صورتحال کا بھر پور سیاسی فائدہ اٹھا رہی تھی۔ اس لیے آج تحریک انصاف کو گلہ نہیں ہونا چاہیے کیونکہ آج وہ خود جس صورتحال سے دوچار ہیں وہ اپنے مخالفین کا ایسی صو رتحال میں سیاسی تمسخر اڑایا کرتے تھے ۔
میں حیران ہوں گالم گلوچ کے بادشاہ مانے جانے والے تحریک انصاف کے رہنما اندر سے ریت کی دیوار نکلے ہیں۔ کل تک مخالفین کو سر عام گندی گالیاں نکالنے والے آج جب روتے نظر آتے ہیں تو سب کو ترس نہیں ہنسی آتی ہے۔ ہم سب حیران ہیں کل تک سیاست کے سلطان راہی آج اندر سے کیسے سیاسی مسخرے نکلے ہیں۔ ان سے چند دن کی مشکل برداشت نہیں ہوئی۔ آپ عثمان ڈار کی مثال لیں۔
جب رانا ثناء اللہ جھوٹے کیس میں بند تھے تو یہ سب ان کا مذاق اڑاتے تھے، لیکن اگر دیکھا جائے تو جب وہ موت کی کوٹھری میں پندرہ کلو ہیروئین کے کیس میں بند تھے تو ان کی آنکھوں سے اس طرح آنسو نہیں نکلے۔ انھوں نے نہ تو سیاست چھوڑی اور نہ ہی نواز شریف کا ساتھ چھوڑا۔ ان پر کتنا دبائو تھا۔ آج ہم سب کو اس کا اندازہ ہوجانا چاہیے۔ ضمانت کے بعد ٹاک شوز میں جب ان پر حملے کیے جاتے تھے تووہ یہی کہتے تھے اگر میں جھوٹا ہوں تو اللہ کا قہر مجھ پر ہو اور اگر آپ لوگ جھوٹے ہیں تو اللہ کا قہر آپ پر ہو۔
سیاست جواں مردی کا کھیل ہے۔ اس میں مشکلات کاٹنی پڑتی ہیں۔ سیاستدان جیلوں میں جاتے ہیں۔ لیکن مضبوط سیاستدان کی یہی پہچان ہے کہ وہ مشکل سے مشکل وقت میں بھی اپنے نظریات اور اصولوں کے ساتھ کھڑا نظر آتا ہے۔
آپ دیکھ لیں تحریک انصاف کے دور میں ن لیگ کا ایک نہیں کئی رہنما کئی کئی ماہ جیلوں میں رہے ہیں۔ ان پر نیب کے کیس رہے ہیں۔ ان کی ضمانتیں نہیں ہوتی تھیں۔ نوے نوے دن کے ریمانڈ دیے جاتے تھے۔ جائیدادیں ضبط کی گئیں۔ سیاست ختم کرنے کی دھمکیاں دی گئیں، لیکن کسی نے نہ تو سیاست چھوڑنے کا اور نہ ہی ن لیگ چھوڑنے کا اعلان کیا ہے۔ لیکن مقابلے میں دیکھیں تو سیاسی مشکل آتے ہی یہ لوگ بھاگ جاتے ہیں۔ یہ کیسے سیاستدان ہیں۔ آج تحریک انصاف میں وعدہ معاف گواہوں کی لائن لگی ہوئی ہے۔
چیئرمین پی ٹی آئی کے دور میں ان کی گالیاں دیکھیں ان کی جانب سے گالم گلوچ دیکھیں اور آج ان کی معافیاں دیکھیں تو لگتا ہی نہیں کہ یہ وہی لوگ ہیں۔ کیا یہ وہی لوگ جن سے کل کسی کی عزت محفوظ نہیں تھی اور نہ آج یہ اپنی عزت کی حفاظت کر پا رہے۔ کل جس تحریک انصاف کے لیے سب کو گالیاں نکالتے تھے، آج پریس کانفرنس اور انٹرویو کے بعد اسی تحریک انصاف سے خود گالیاں کھاتے نظر آتے ہیں۔
کل تک لوگوں کے خلاف سوشل میڈیا ٹرینڈ بنوانے والوں کے خلاف آج جب خود ٹرینڈ بن رہے ہیں تو یقیناً انھیں احساس ہوتا ہوگا کہ وہ کتنا برا سلوک کرتے تھے۔ کیا یہ تھے وہ ٹکر کے لوگ۔ یہ تھے وہ سیاسی جن ۔ یہ تو کاغذ کے سلطان راہی نکلے ہیں۔ ان میں تو ٹکر لینے کی ہمت ہی نہیں تھے۔ یہ سیاست کے میدان کے جوکر نکلے ہیں۔
جو لوگ مفرور ہیں۔ کل تک وہ اپنے سیاسی مخالفین کو ملک سے باہر جانے پر گالیاں دیتے تھے۔ آج خود مفرور ہیں۔ کل تک کہتے تھے کہ سچے ہیں تو عدالت میں آئیں۔ آج کیا ان سے بھی سوال کیا جا سکتا ہے کہ سچے ہیں تو عدالت میں آئیں۔ کل تک کہتے تھے جو ملک سے چلا گیا وہ چور ہے۔ جو ملک سے بھاگ گیا وہ مجرم ہے۔ آج خو د ملک سے بھاگ گئے ہیں۔ ان کو پاکستان کی سیاست میں حصہ لینے کا کوئی حق نہیں ہونا چاہیے کیونکہ کل یہی لوگ یہ دلیل اپنے مخالفین کے بارے میں دیتے تھے۔
کل تک دوسری سیاسی جماعت کے رہنمائوں کی نا اہلی پر فتح کا جشن منانے والے آج اپنی نا اہلی پر ہمدردی کا مطالبہ کیسے کر سکتے ہیں۔ یہ سیاست کا کھیل ہے۔ لیکن جس طرح تحریک انصاف کے رہنمائوں نے میدان سے بھاگنے کی لائن لگائی ہے۔ اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ سوچنے کی بات ہے ہم نے ملک کی باگ ڈور کتنے کمزور لوگوں کے ہاتھ میں دے دی ہوئی تھی۔ ان کے تو پائوں ہی نہیں تھے۔ انھوں نے ملک کیا چلانا تھا۔
The post سیاست کے جعلی لیڈر appeared first on ایکسپریس اردو.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں