سوشل میڈیا کے دور میں بچوں کو اجنبیوں سے دور رکھنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوگیا ہے۔ بچوں سے زیادہ تو بڑے آج کل سوشل میڈیا سے چپکے رہتے ہیں۔ ہمیں اس سوشل میڈیا کی دنیا، جو کہ باہر سے بہت خوبصورت اور دلکش نظر آتی ہے، کے صرف فائدے ہی فائدے نظر آتے ہیں جبکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ سوشل میڈیا کی دنیا خطرات سے پُر ہے۔ ہمیں اس مصنوعی دنیا میں آن لائن فراڈ، آن لائن ہراسمنٹ، بلیک میلنگ اور ٹرولنگ کا سامنا بھی رہتا ہے۔
سوشل میڈیا کے خطرات سے بچنے کےلیے ضروری ہے کہ ہم اس کے استعمال کا درست طریقہ نہ صرف خود سیکھیں بلکہ اپنے بچوں کو بھی اس سے آگاہ کریں تاکہ ہم آنے والے دنوں میں بہت سی الجھنوں سے بچ سکیں۔ سوشل میڈیا کی دنیا خودنمائی یا نمائش کی دنیا ہے۔ یہاں ہر کوئی وہ دکھانا چاہتا ہے جو وہ ہے ہی نہیں۔ تعریف و ستائش کے چکر میں کئی لوگ اپنے بچوں کی کامیابی کی تصاویر، ان کے اسکول کے ایڈریس، فون نمبر وغیرہ تک لکھ دیتے ہیں۔ اسکول یونیفارمز میں بچوں کی تصاویر جرائم پیشہ افراد کےلیے حاصل کرنا اور پھر ان سے بچوں یا ان کے والدین کو بلیک میل کرنا بہت آسان ہوجاتا ہے۔ اس لیے کبھی بھی بچوں کے اسکول ایڈریس، فون نمبرز، مکانات اور دکان کے ایڈریس وغیرہ سوشل میڈیا کی کسی بھی سائٹ پر لکھنے سے گریز کریں، حتیٰ کہ کئی افراد بچوں کے رزلٹ کارڈ بھی فیس بک وغیرہ پر اپ لوڈ کردیتے ہیں، جو کہ حماقت کے سوا کچھ نہیں۔
ہمیشہ نہ صرف بچوں بلکہ اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کےلیے مضبوط ترین پاس ورڈرز کا استعمال یقینی بنائیں۔ ان میں اعداد، حروف تہجی، اور مختفل سائن وغیرہ شامل ہونے چاہئیں تاکہ ان پاس ورڈز کو ہیک کرنا مشکل ہو اور آپ اور آپ کے بچوں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس محفوظ رہیں۔
بچوں کےلیے ایسی ویب سائٹس تلاش کیجیے جو ان کی عمر کے مطابق ہوں، ان میں کوئی قابل اعتراض مواد شامل نہ ہو۔ وہ ویب سائٹس وائرس سے محفوظ ہوں اور اس سے بچے کو کسی قسم کی ہراسگی کا سامنا نہ کرنا پڑے اور نہ ہی آپ کو بچوں کے سامنے کوئی سبکی اٹھانا پڑے۔ آپ کے بچوں کو صرف جاننے والے افراد کے ساتھ بات چیت کی اجازت ہونی چاہیے۔ وقتاً فوقتاً یہ دیکھتے رہیے کہ بچے کن لوگوں سے چیٹ کر رہے ہیں اور کیا بات کررہے ہیں؟ یا انھیں ملنے والے پیغامات یا چیٹ کس نوعیت کی ہے۔ اس طرح بچوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھ کر انھیں آن لائن ہراسمنٹ سے بچایا جاسکتا ہے۔
بچوں کو آن لائن اخلاقیات سکھانے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ آپ بھی آن لائن گفتگو کرنے کے باوقار طریقوں سے آگاہ ہوں۔ آپ کو علم ہو کہ کس صورتحال میں کس طرح کے جذبات یا ردعمل کا اظہار کرنا ہے۔ بچے عموماً بہت جذباتی ہوتے ہیں، وہ کسی بھی پوسٹ پر کسی بھی کمنٹ سے غصے میں بھی آسکتے ہیں اور جواب میں کوئی سخت جواب بھی لکھ سکتے ہیں۔ بچوں کے غصے اور جذباتی پن کا اجنبی افراد بہت فائدہ اٹھاتے ہیں اور بچے کےلیے مشکلات پیدا کرسکتے ہیں۔
کوشش یہ کرنی چاہیے کہ بچوں کو صبر و تحمل اور اخلاقیات سکھائی جائیں اور یہ ضروری نہیں کہ ہر کمنٹ یا پوسٹ پر کمنٹ کرنا ضروری ہو، اکثر کمنٹس کرنے سے ہی بحث طوالت اختیار کرجاتی ہے، لہٰذا بچوں کو سمجھائیے کہ انھیں ایسے حالات میں کس طرح مخاطب کو نظر انداز کرنا ہے تاکہ انھیں کسی قسم کی دھمکیاں نہ مل سکیں۔
آپ کو بعض اوقات علم نہیں ہتا کہ آپ کی لسٹ میں شامل کوئی بھی شخص کس ماحول سے تعلق رکھتا ہے یا وہ آپ کی دی ہوئی معلومات کو کسی غلط طریقے سے بھی استعمال کرسکتا ہے۔ اس لیے ذاتی تصاویر اور ذاتی معلومات زیادہ سے زیادہ شیئر کرنے سے گریز کیجیے۔ آن لائن ہراسگی کی صورت میں بجائے خود کوئی قدم اٹھانے کے سائبر کرائم سیل سے فوری طور پر رجوع کرنا چاہیے اور اپنے آپ کو محفوظ بنانا چاہیے۔ سب سے آخر میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ بچوں کےلیے اسکرین ٹائم محدود کیجیے۔ بچوں کے اکاؤنٹ پر کوئی بھی مشکوک سرگرمی دیکھیں تو اس کو فوری طور پر رپورٹ کریں۔ بچوں کو سختی سے منع کیا جائے کہ کوئی بھی لنک شیئر کرنے یا کلک کرنے سے گریز کریں۔
سوشل میڈیا کی زندگی میں احتیاط ایک واحد چیز ہے جو ہمیں اور ہمارے بچوں کو ہراسگی سے محفوظ رکھ سکتی ہے۔ اس بناوٹی دنیا میں بہت کم اچھا اور زیادہ تر خطرناک ہے، لہٰذا محتاط رہنا بہت ضروری ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
The post بچوں کو آن لائن ہراسانی سے بچائیے appeared first on ایکسپریس اردو.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں