پاکستان بپھرے ہوئے سمندر میں ایک ایسا جزیرہ ہے جو ہر وقت سیاست کی بے رحم لہروں کی زد میں رہتا ہے۔
75 برس کی تاریخ میں شاید ہی کوئی پرسکون سال گزرا ہوگا، تقسیم کے بعد تاریخ کے بھیانک فرقہ وارانہ فسادات ہوئے جن میں لاکھوں بے گناہ انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ، لوگ اپنا آبائی وطن چھوڑکر نقل مکانی پر مجبور ہوئے اور دربدری ان کا مقدر ٹھہری۔ سب کو یقین تھا کہ تقسیم ہند کے بعد یہ خطہ سکون کی آماجگاہ بن جائے گا، مذہبی اور فرقہ وارانہ نفرتوں کا خاتمہ ہوگا اور نو تخلیق پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہوجائے گا۔
1947 کے فوراً بعد سے ہی خواب اور حقیقت کے درمیان ٹکراؤ کے سلسلے کا آغاز ہوگیا۔ ملک کے مشرقی بازو کو یہ احساس ہونے لگا کہ مشرقی بنگال کو مشرقی پاکستان بناتے وقت انھوں نے جو توقعات وابستہ کی تھیں ان کا پورا ہونا مشکل ہے۔
بانیٔ پاکستان کی زندگی میں ہی مشرقی بازو نے اپنی ناراضی کا اظہارکرنا شروع کر دیا تھا۔ بنگالی زبان کو اس کا جائز مقام دینے کے مطالبے کو جس طرح مسترد کیا گیا، اس نے بنگالی نژاد پاکستانیوں کے اندر محرومی کا ایسا احساس پیدا کر دیا جسے کسی بھی حکومت نے ختم کرنے کی شعوری کوشش نہیں کی اور نتیجہ یہ ہوا کہ بے پناہ امیدوں اور آرزوؤں سے بنایا جانے والا ملک ٹوٹ گیا۔
اس المناک تجربے سے کوئی سبق نہیں سیکھا گیا اور یکے بعد دیگرے آمرانہ حکومتیں آتی رہیں اور جمہوریت پسند سیاسی رہنماؤں کو معتوب کیاجاتا رہا ۔ یہ سب باتیں اس صدارتی انتخاب کے حوالے سے یاد آرہی ہیں جس میں جناب آصف علی زرداری بھاری اکثریت سے کامیاب ہو کر پاکستان کے 17 ویں صدر بن چکے ہیں۔
یہ صدارتی انتخاب کئی حوالوں سے خاصی اہمیت کا حامل ہے ۔ سب سے پہلے اس افسوس ناک پہلو پر نظر ڈالنی چاہیے کہ کیا ایک جمہوری ریاست کے اعلیٰ ترین منصب پر کسی آمر یا غیر منتخب اور غیر جمہوری فرد کو فائز ہونا چاہیے؟
کیا یہ ہماری بدنصیبی نہیں کہ ریاست پاکستان کے پہلے صدر جنرل اسکندر مرزا تھے جو دو سال چند ماہ تک برسر اقتدار رہے۔ اس کے بعد دوسرے صدر جنرل محمد ایوب خان تھے جو تقریباً ساڑھے دس سال تک صدارت کے منصب پر قابض رہے، وہ تشریف لے گئے تو ان کی جگہ جنرل محمد یحییٰ خان نے کرسی صدارت پر قبضہ جما لیا۔ ان کا صدارتی دور پونے تین سال پر محیط تھا۔ ملک کے چھٹے صدر جنرل محمد ضیا الحق تھے جو نو سال گیارہ ماہ تک صدرکے منصب پر بزور طاقت براجمان رہے۔
ان کے بعد 12 ویں صدر جنرل پرویز مشر ف تھے جو بڑے جاہ و جلال سے سات سال تک ملک کے اعلیٰ ترین منصب پر غیر آئینی طور پر فائز رہے۔ آصف علی زرداری کے صدر منتخب ہونے پر یہ تاریخی حقیقت بھی بیان کردینی چاہیے کہ ہر فوجی آمرکے دور میں ملک کو ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑا۔ تمام فوجی آمروں کے دورکو یکجا کر کے جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ان کے ادوار میں پاکستان دو ٹکڑے ہوا، کئی جنگیں لڑی گئیں، بہت سا علاقہ ہاتھ سے جاتا رہا، کارگل اور سیاچن پر ہزیمت اٹھانی پڑی، سیاسی کارکنوں پر ظلم اور جبر روا رکھا گیا ۔
درجنوں لوگوں کو سیاسی اختلاف کی وجہ سے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ ایک منتخب وزیر اعظم کو پھانسی کے تختے پر لٹکا دیا گیا، ایک وزیر اعظم کو بھرے مجمع میں گولی مار کر قتل کردیا گیا۔ ایک اور وزیر اعظم کو گرفتار کرنے کے بعد جعلی مقدموں میں طویل سزائیں سنائی گئیں بعد ازاں جب وہ جیل میں موت کے قریب پہنچ گیا تو اسے مجبوراً باہر جانے دیا گیا۔
پاکستان میں اگر فوجی آمر صدر بن کر 32سال تک قابض نہ رہتے تو شاید ہم کو اتنی تکلیف دہ صورت حال سے نہ گزرنا پڑتا۔ آصف علی زرداری کوکیا کچھ نہیں کہا گیا، ان کی ہر ممکن کردار کشی کی گئی لیکن جب وہ 2008 میں ملک کے14 ویں صدر بنے تو انھوں نے وہ عمل کیا جس نے ان کے بڑے سے بڑے نقاد کو بھی چونکا دیا، وہ اقتدار میں آئے تھے تو اس وقت صدرکو آئین پاکستان کے تحت جو اختیار حاصل تھا، اس اختیار کے باعث ان کے سامنے منتخب وزیر اعظم کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔
انھوں نے رضا کارانہ طور پر اپنا اختیار ختم کرکے پارلیمنٹ، وزیر اعظم اور کابینہ کو مکمل طور پر بااختیار بنا دیا۔ یہ کام ایک جمہوری اور سیاسی کارکن اور رہنما ہی کرسکتا تھا۔ انھیں اگر اختیار اور طاقت کا شوق ہوتا تو وہ خود کو 1973 کے آئین کے تحت ایک آئینی سربراہ ریاست بننا کبھی قبول نہ کرتے۔ ان کو ایسا کرنے سے کوئی روکنے والا بھی نہیں تھا۔
پارلیمنٹ میں کسی جماعت کو دو تہائی اکثریت حاصل نہیں تھی کہ وہ ان کو اس اختیار سے محروم کرنے کی کوشش کرتی۔ خود کو بے اختیار کر کے پارلیمنٹ کو بااختیار اور بالا دست بنانا ایسا شاندار اور غیر معمولی کام تھا جو لوگوں کو یاد نہیں رہا لیکن ان کا یہ اقدام تاریخ میں ہمیشہ اچھے الفاظ میں لکھا جائے گا۔
نو منتخب صدر سے یہ امید کی جانی چاہیے کہ وہ ہمیشہ کی طرح جمہوری روایات اور آدرشوں کو بلند رکھیں گے ملک اس وقت سیاسی تقسیم کے بدترین دور سے گزر رہا ہے اس وقت صبر، تحمل اور بردباری کی سخت ضرورت ہے۔
مخلوط حکومت میں شامل دونوں بڑی جماعتوں کو دانشمندی سے آگے بڑھنا ہوگا۔ پہلا امتحان یہ ہوگا کہ سیاسی اختلافات کے باوجود مشکل فیصلے باہمی مشاورت سے کیے جائیں اور عارضی سیاسی فائدے یا مفاد کی خاطر سخت فیصلوں سے گریزکی راہ ہرگز اختیار نہ کی جائے۔
صدر آصف علی زرداری نے زندگی کے بارہ سال قید میں گزارے ہیں، ان کا سیاسی تجربہ بہت وسیع ہے، لٰہذا ان سے توقع رکھنی چاہیے کہ وہ ملک میں جمہوری اور سیاسی استحکام کے لیے اپنے دائرہ اختیار سے کسی بھی صورت میں تجاوز نہ کرتے ہوئے تعمیری کردار ادا کریں گے۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پاکستان کے عوام سخت صدمے سے دوچار تھے ۔ سندھ میں لوگوں نے شدید رد عمل کا اظہارکیا۔ ایک مرحلے پر نظر آرہا تھا کہ کسی بھی وقت حالات قابو سے باہر ہوسکتے ہیں۔ یہی وہ موقع تھا جناب آصف علی زرداری نے غیر معمولی صبر اور تدبرکا مظاہرہ کرتے ہوئے ’’پاکستان کھپّے‘‘ کا نعرہ بلند کیا اور اس عزم کو دہرایا کہ جمہوریت ہی بہترین انتقام ہے۔
وقت نے بالآخر ثابت کردیا کہ جمہوریت کے ذریعے ہی قومیں اپنی غلطیوں کو درست کرتی ہیں اور وہ ملک کبھی نہیں ٹوٹتے جہاں جمہوری عمل کو چلنے دیا جاتا ہے ۔ 1971 میں پارلیمنٹ اور آئین کی بالاد ستی کو قبول کر لیا جاتا تو ملک کبھی نہ ٹوٹتا۔ پاکستان کو آج اپنی تاریخ کے بدترین معاشی بحران سے باہر نکلنا ہے تو یہ کام بھی جمہوریت پر عمل کے ذریعے ہی ہوسکتا ہے۔ صدر آصف علی زرداری کا کہنا ہے کہ تمام فیصلے پارلیمنٹ کرے گی۔ یہی وہ نکتہ ہے جسے سمجھ لیا جائے تو پاکستان موجودہ بحران پر بہت جلد قابو پاسکتا ہے۔
پاکستانی عوام نے 75 سال کے دوران سکھ اور چین کا ایک دن بھی نہیں دیکھا ہے۔ ان تمام سیاسی و جمہوری طاقتوں ، آئینی اداروں اور محکموں کا فرض ہے کہ وہ اپنا آرام تج کر عوام کو اپنے عمل کے ذریعے پر سکون اور پر امید مستقبل کا یقین دلائیں۔
The post صدر آصف علی زرداری سے امیدیں اور توقعات appeared first on ایکسپریس اردو.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں